قارئین! شیخ الوظائف کی محافل سننے سے لاکھوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں‘ گھریلو الجھنیں حیرت انگیز طور پر ختم ہوجاتی ہیں‘ آپ بھی سنیں خواہ تھوڑی سنیںلیکن روز سنیں۔
یہ کہانی سچی اور اصلی ہے۔ تمام کردار احتیاط سے دانستہ فرضی کر دئیے گئے ہیں‘ کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔
محترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم!آپ سے نسبت تقریباً دو سال پہلے ہوئی ہے۔ میں یہ خط آپ کو اس لئے لکھ رہی ہوں کہ میں آپ کو بتا سکوں کہ آپ سے نسبت سے پہلے کیسی تھی اور اب کیسی ہوں؟ آپ سے نسبت جُڑنے سے پہلے میرے دن رات کیسے تھے اور اب کیسے ہیں؟ آپ میری زندگی میں ایک مہربان ہستی بن کر آئے ہیں۔
دین دار گھرانہ قید خانہ محسوس ہوتا
میں نے ایک نیک اور دین دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہوں اور سب سے الگ تھی۔ میں چھوٹی تھی‘ لاڈ پیار تھا ۔ میری سوچیں کسی اور سطح پر کام کرتی تھیں۔ میں سوچتی تھی سب کے گھر میں ٹی وی ہے‘ ہمارے گھر میں کیوں نہیں؟ امی اگر کہتیں سر پر دوپٹہ لو تو مجھے شدید غصہ آتا ، میں امی سے تو کچھ نہیں کہتی تھی لیکن دل ہی دل میں بہت کُڑھتی تھی۔ مجھے یہ سوچ کر ہی ڈر لگتا تھا کہ میں جب بڑی ہو جائوں گی تو دوسری بہنوں کی طرح مجھے بھی پردہ کرنا پڑے گا‘ میں کیسے کروں گی؟ مجھے گھر کی فضا قیدخانہ معلوم ہوتی تھی۔ میں ہر پابندی کو منفی انداز میں سوچتی حالانکہ میرے والدین بہت اچھے ہیں۔ بے جا پابندیاں نہیں ہوتی تھیں ان کے دِلوں میں اسلام کی محبت اور حیا تھی اور اسی کی وہ ہم سب سے توقع کرتے تھے۔میں کہتی تھی میں تو پردہ نہیں کروں گی‘ میرے دل میں جو آئے گا میں وہ کروں گی۔
’’دل میں جو آئے گا وہ کروں گی ‘‘
بہت پلان بناتی تھی کہ کیسے یہ قید ختم ہوگی؟مجھے کب آزادی ملے گی اور میںنئے جدید دور کے مطابق اپنی زندگی بسر کروں گی‘ جو دل میں آئے گا وہ کرونگی۔ میںٹیوشن پڑھنے کے لئےبہن کے گھر پر جاتی اور وہاںاکثر ان کے شوہر کا موبائل پکڑ کرسب کی نظر سے اوجھل کر ہو کر ڈرامے‘ فلمیں دیکھتی رہتی۔ میں کہتی تھی پتہ نہیں میرے پاس کب موبائل آئیگا اور میں پوری دنیا کے گانے‘ فلمیں‘ ڈرامے دیکھوںگی۔یہ خواہشات بڑھتی جا رہی تھیں اور گھر والوں کیخلاف بغاوت کا جذبہ بھی پروان چڑھ رہا تھا۔اپنی ان خواہشات کی تکمیل کیلئے کوششیں شروع کر دی تھیں جس میں کامیاب بھی ہو رہی تھی۔
خواہشات کی تکمیل میںبھٹک چکی تھی مگر۔۔
میںمیٹرک میںتھی کہ اس دوران گھر والوں کی نسبت آپ سے ہو گئی۔سب گھر والے آپ کی روحانی محفل باقاعدگی سے سنتے مگر میں ان دنوں اپنی خواہشات کی تکمیل کی فکر میں رہتی۔عبقری سے تعارف ہوا تو کچھ وظائف شروع کرتی مگر چند دن کے بعد چھوڑ دیتی اور پھر اپنی دنیا میں مگن ہو جاتی‘جی بھر کر فلمیں ڈرامے دیکھتی اور خود بھی ویسا بننے کی کوشش کرتی، قریب تھا کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے بھٹک جاتی‘ اپنی دنیا و آخرت تباہ کرلیتی اور والدین کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنتی مگر اللہ تعالیٰ نےمیری حفاظت فرمائی۔میں نے جو چند دن روحانی وظائف کیے ان کاایسا نور ملا کہ اپنے گناہوں اور سوچ پر دل میں ملال پیدا ہونا شروع ہو گیا۔پھر آپ کی روحانی محافل سننا شروع کیں تو ایک عجیب سا روحانی سکون ملا‘آہستہ آہستہ میری سوچ بدلنے لگی‘ گناہوں بھری زندگی اور اپنی منفی سوچ سے نفرت ہونا شروع ہو گئی۔ تسبیح خانہ کی حاضری کی توفیق ملنے لگی۔کبھی کبھار دل بھٹکنے لگتا توکوئی ایسی رکاوٹ آجاتی جس وجہ سے میںگناہوں سے بچ جاتی۔
بظاہر انسان مگر اندر سے جانور
ایک دن سکول سے چھٹی تھی‘انٹرنیٹ نہیں تھا‘ موبائل میں آپ کی روحانی محافل کی ریکارڈنگ موجود تھی‘ ان میں سے ایک روحانی محفل سننے لگی جس میں آپ نے بتایا کہ انسانوں کے بھی درجے ہوتے ہیں کیونکہ ہر انسان اندر سے انسان نہیں ہوتا بلکہ بعض جانور اور بعض اس سے بھی بد تر ہوتے ہیں ۔ حوالہ کے طور پر آپ نے قرآن پاک کی آیت بھی پڑھی ۔اس محفل میں آپ نے ایک نوجوان کا قصہ بھی سنایا تھا جس نے تیسرا کلمہ بہت زیادہ پڑھاتھا اور اسے پھر اللہ کا دیدار ہوا تھا۔میں حیران ہو گئی کہ ایک یہ بھی دنیا ہے اور یہ بھی سوچ ہے۔آپ نے اسی محفل میں دل کی آنکھوں پر بات کی تھی۔ سُن کر پتہ نہیں کیا ہو گیا؟میں اندر ہی اندر شرمندہ ہو کر ٹوٹ چکی تھی‘۔میری کیفیت ایسی تھی:
’’بس اِک بجلی سی پہلی کوندی پھر اس کےآگے خبر نہیں ہے
’’مگر جو پہلوکو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے جگر نہیں ہے‘‘
محفل ختم ہوئی تو عشاء کی نماز پڑھ کر بہت روئی‘ سب کمرے میں بیٹھ کر ہنس رہے تھے اور میں دوسرے کمرےمیں تنہا بیٹھ کر رو رہی تھی۔مجھے احساس ہوا کہ رب کی محبت میں رو رہی ہے۔ یہ احساس ہوا تو میں پھر بہت روئی‘حتیٰ کہ مجھے اسی رات بخار ہو گیا۔ آپ میری زندگی میں آئے تو آپ نے دنیا کی محبت دل سے نکال کر اللہ کی محبت میں رونا سکھایا۔’’کسی مہربان نے آ کر میری زندگی سجا دی‘‘بس پھر اللہ سے تعلق بننے لگا‘آپ کی ہر شب جمعہ کو آن لائن روحانی محفل سننا شروع کر دی۔پہلے پردے سے سخت نفرت تھی مگر اب خود اہتمام کے ساتھ پردہ کرتی ہوں۔
نفس کی قربانی :میں نے پہلی قربانی جو اپنے جذبات‘ خواہشات اور نفس کی دی وہ یہ تھی کہ کالج میں پارٹی تھی‘ میں نے بھی جانا تھا‘ تیاریاں مکمل تھیں۔کالج میں پارٹی کی مکمل تیاریاں ناچ گانے کی ہو رہی تھیں۔ میں نے کہا بعد میں توبہ کر لوں گی‘ Farwell پارٹی ہے۔میں نے آپ سے سنا تھا جہاں گانا بجانا ہوتا ہے وہاں ہنومان شیطانی جنات آتے ہیں اور ناچتے ہیں اور لڑکیوں کے کھلے بالوں کے ساتھ گھنگھرو باندھتے ہیں ۔ میرا لباس بھی تیار تھا میں تقریباً چار سے پانچ دن روتی رہی اور مانگتی رہی‘ اے اللہ! تو توفیق دے دے‘ میں بے بس ہوں تو بے بس نہیں‘ اے اللہ! تو طاقتور ہے‘ میں کمزور ہوں۔ میرے کانوں میں ایک حدیثِ قدسی گونجی:’’اے ابنِ آدم! اِک تیری چاہت ہے‘ اِک میری چاہت ہے ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے۔‘‘یہ سب کچھ سنا تو پہلے بھی تھا لیکن اس کا احساس آپ سے جُڑنے کے بعد ہوا۔ ان دنوں بہن نے کہا کہ ہم نے تسبیح خانہ میں تین دن روحانی چلہ کے لئے جانا ہے۔ میں نے کہا کہ میں پارٹی میں نہیں جائوں گی‘ میں رب کی چاہت کو اپنائوں گی ۔ میں تسبیح خانہ میں آ ئی اوررو رو کر دعا مانگی کہ اے اللہ! میں نے تیری چاہت کو اپنایا ہے اب بس تو مجھے قبول کر لے۔اساتذہ سے‘ دوستوں سے بہت باتیں سننی پڑیں۔ سب حیران تھے کہ میں نے پارٹی چھوڑ کیسے دی؟میں نے ان سب چیزوں کو ناگواریاں سمجھ کر ہنس کر برداشت کیا۔
خدمت نے زندگی کا رخ ہی بدل دیا:میں نے قرآن پڑھنا چھوڑ دیا تھا مگر آپ ہی کی نسبت کی وجہ سے دوبارہ قرآن پاک سے تعلق بنا۔ تسبیح خانہ میں ہر موقع پر حاضری ہوتی رہی۔نویں‘ دسویں محرم‘ گیارہویں‘ بارہویں ربیع الاوّل پر تسبیح خانہ حاضری دی‘ بہت زیادہ روحانی سکون ملا‘لنگر بھی بہت لذیذ تھا۔وہاں بھی یہ دعا کرتی رہی کہ اے اللہ تیرے لیے میں نے اپنی خواہشات اور جذبات کو قربان کیا اور مدینے والے کے حکم پر عمل کیا بس تو قبول کرلے۔ پھر رمضان کا مہینہ آیا‘ میں نے اور گھر والوں نے پورا رمضان تسبیح خانہ میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ میرے دل میں اللہ کا عشق‘ مدینے والے کا عشق اور حضرت جی آپ کے عشق کی چنگاریاں پیدا ہو چکی تھیں۔ رمضان خدمت کی نیت سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔الحمدللہ اس رمضان نے تو میری زندگی کو یکسر ہی بدل دیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ کو اور آپ کی نسلوں کو اور آپ سے جُڑے ہر انسان کو کامل ایمان‘ کامل اخلاق اور کامل اخلاص عطا فرمائے۔ آمین!
یہ کہانی سچی اور اصلی ہے۔ تمام کردار احتیاط سے دانستہ فرضی کر دئیے گئے ہیں‘ کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔ محترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم!آپ سے نسبت تقریباً دو سال پہلے ہوئی ہے۔ میں یہ خط آپ کو اس لئے لکھ رہی ہوں کہ میں آپ کو بتا سکوں کہ آپ سے نسبت سے پہلے کیسی تھی اور اب کیسی ہوں؟ آپ سے نسبت جُڑنے سے پہلے میرے دن رات کیسے تھے اور اب کیسے ہیں؟ آپ میری زندگی میں ایک مہربان ہستی بن کر آئے ہیں۔دین دار گھرانہ قید خانہ محسوس ہوتامیں نے ایک نیک اور دین دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہوں اور سب سے الگ تھی۔ میں چھوٹی تھی‘ لاڈ پیار تھا ۔ میری سوچیں کسی اور سطح پر کام کرتی تھیں۔ میں سوچتی تھی سب کے گھر میں ٹی وی ہے‘ ہمارے گھر میں کیوں نہیں؟ امی اگر کہتیں سر پر دوپٹہ لو تو مجھے شدید غصہ آتا ، میں امی سے تو کچھ نہیں کہتی تھی لیکن دل ہی دل میں بہت کُڑھتی تھی۔ مجھے یہ سوچ کر ہی ڈر لگتا تھا کہ میں جب بڑی ہو جائوں گی تو دوسری بہنوں کی طرح مجھے بھی پردہ کرنا پڑے گا‘ میں کیسے کروں گی؟ مجھے گھر کی فضا قیدخانہ معلوم ہوتی تھی۔ میں ہر پابندی کو منفی انداز میں سوچتی حالانکہ میرے والدین بہت اچھے ہیں۔ بے جا پابندیاں نہیں ہوتی تھیں ان کے دِلوں میں اسلام کی محبت اور حیا تھی اور اسی کی وہ ہم سب سے توقع کرتے تھے۔میں کہتی تھی میں تو پردہ نہیں کروں گی‘ میرے دل میں جو آئے گا میں وہ کروں گی۔’’دل میں جو آئے گا وہ کروں گی ‘‘ بہت پلان بناتی تھی کہ کیسے یہ قید ختم ہوگی؟مجھے کب آزادی ملے گی اور میںنئے جدید دور کے مطابق اپنی زندگی بسر کروں گی‘ جو دل میں آئے گا وہ کرونگی۔ میںٹیوشن پڑھنے کے لئےبہن کے گھر پر جاتی اور وہاںاکثر ان کے شوہر کا موبائل پکڑ کرسب کی نظر سے اوجھل کر ہو کر ڈرامے‘ فلمیں دیکھتی رہتی۔ میں کہتی تھی پتہ نہیں میرے پاس کب موبائل آئیگا اور میں پوری دنیا کے گانے‘ فلمیں‘ ڈرامے دیکھوںگی۔یہ خواہشات بڑھتی جا رہی تھیں اور گھر والوں کیخلاف بغاوت کا جذبہ بھی پروان چڑھ رہا تھا۔اپنی ان خواہشات کی تکمیل کیلئے کوششیں شروع کر دی تھیں جس میں کامیاب بھی ہو رہی تھی۔خواہشات کی تکمیل میںبھٹک چکی تھی مگر۔۔میںمیٹرک میںتھی کہ اس دوران گھر والوں کی نسبت آپ سے ہو گئی۔سب گھر والے آپ کی روحانی محفل باقاعدگی سے سنتے مگر میں ان دنوں اپنی خواہشات کی تکمیل کی فکر میں رہتی۔عبقری سے تعارف ہوا تو کچھ وظائف شروع کرتی مگر چند دن کے بعد چھوڑ دیتی اور پھر اپنی دنیا میں مگن ہو جاتی‘جی بھر کر فلمیں ڈرامے دیکھتی اور خود بھی ویسا بننے کی کوشش کرتی، قریب تھا کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے بھٹک جاتی‘ اپنی دنیا و آخرت تباہ کرلیتی اور والدین کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنتی مگر اللہ تعالیٰ نےمیری حفاظت فرمائی۔میں نے جو چند دن روحانی وظائف کیے ان کاایسا نور ملا کہ اپنے گناہوں اور سوچ پر دل میں ملال پیدا ہونا شروع ہو گیا۔پھر آپ کی روحانی محافل سننا شروع کیں تو ایک عجیب سا روحانی سکون ملا‘آہستہ آہستہ میری سوچ بدلنے لگی‘ گناہوں بھری زندگی اور اپنی منفی سوچ سے نفرت ہونا شروع ہو گئی۔ تسبیح خانہ کی حاضری کی توفیق ملنے لگی۔کبھی کبھار دل بھٹکنے لگتا توکوئی ایسی رکاوٹ آجاتی جس وجہ سے میںگناہوں سے بچ جاتی۔بظاہر انسان مگر اندر سے جانورایک دن سکول سے چھٹی تھی‘انٹرنیٹ نہیں تھا‘ موبائل میں آپ کی روحانی محافل کی ریکارڈنگ موجود تھی‘ ان میں سے ایک روحانی محفل سننے لگی جس میں آپ نے بتایا کہ انسانوں کے بھی درجے ہوتے ہیں کیونکہ ہر انسان اندر سے انسان نہیں ہوتا بلکہ بعض جانور اور بعض اس سے بھی بد تر ہوتے ہیں ۔ حوالہ کے طور پر آپ نے قرآن پاک کی آیت بھی پڑھی ۔اس محفل میں آپ نے ایک نوجوان کا قصہ بھی سنایا تھا جس نے تیسرا کلمہ بہت زیادہ پڑھاتھا اور اسے پھر اللہ کا دیدار ہوا تھا۔میں حیران ہو گئی کہ ایک یہ بھی دنیا ہے اور یہ بھی سوچ ہے۔آپ نے اسی محفل میں دل کی آنکھوں پر بات کی تھی۔ سُن کر پتہ نہیں کیا ہو گیا؟میں اندر ہی اندر شرمندہ ہو کر ٹوٹ چکی تھی‘۔میری کیفیت ایسی تھی: ’’بس اِک بجلی سی پہلی کوندی پھر اس کےآگے خبر نہیں ہے ’’مگر جو پہلوکو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے جگر نہیں ہے‘‘محفل ختم ہوئی تو عشاء کی نماز پڑھ کر بہت روئی‘ سب کمرے میں بیٹھ کر ہنس رہے تھے اور میں دوسرے کمرےمیں تنہا بیٹھ کر رو رہی تھی۔مجھے احساس ہوا کہ رب(باقی صفحہ59) (بقیہ:درویش صفت والدین کی بھٹکی اولاد!)کی محبت میں رو رہی ہے۔ یہ احساس ہوا تو میں پھر بہت روئی‘حتیٰ کہ مجھے اسی رات بخار ہو گیا۔ آپ میری زندگی میں آئے تو آپ نے دنیا کی محبت دل سے نکال کر اللہ کی محبت میں رونا سکھایا۔’’کسی مہربان نے آ کر میری زندگی سجا دی‘‘بس پھر اللہ سے تعلق بننے لگا‘آپ کی ہر شب جمعہ کو آن لائن روحانی محفل سننا شروع کر دی۔پہلے پردے سے سخت نفرت تھی مگر اب خود اہتمام کے ساتھ پردہ کرتی ہوں۔ نفس کی قربانی :میں نے پہلی قربانی جو اپنے جذبات‘ خواہشات اور نفس کی دی وہ یہ تھی کہ کالج میں پارٹی تھی‘ میں نے بھی جانا تھا‘ تیاریاں مکمل تھیں۔کالج میں پارٹی کی مکمل تیاریاں ناچ گانے کی ہو رہی تھیں۔ میں نے کہا بعد میں توبہ کر لوں گی‘ Farwell پارٹی ہے۔میں نے آپ سے سنا تھا جہاں گانا بجانا ہوتا ہے وہاں ہنومان شیطانی جنات آتے ہیں اور ناچتے ہیں اور لڑکیوں کے کھلے بالوں کے ساتھ گھنگھرو باندھتے ہیں ۔ میرا لباس بھی تیار تھا میں تقریباً چار سے پانچ دن روتی رہی اور مانگتی رہی‘ اے اللہ! تو توفیق دے دے‘ میں بے بس ہوں تو بے بس نہیں‘ اے اللہ! تو طاقتور ہے‘ میں کمزور ہوں۔ میرے کانوں میں ایک حدیثِ قدسی گونجی:’’اے ابنِ آدم! اِک تیری چاہت ہے‘ اِک میری چاہت ہے ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے۔‘‘یہ سب کچھ سنا تو پہلے بھی تھا لیکن اس کا احساس آپ سے جُڑنے کے بعد ہوا۔ ان دنوں بہن نے کہا کہ ہم نے تسبیح خانہ میں تین دن روحانی چلہ کے لئے جانا ہے۔ میں نے کہا کہ میں پارٹی میں نہیں جائوں گی‘ میں رب کی چاہت کو اپنائوں گی ۔ میں تسبیح خانہ میں آ ئی اوررو رو کر دعا مانگی کہ اے اللہ! میں نے تیری چاہت کو اپنایا ہے اب بس تو مجھے قبول کر لے۔اساتذہ سے‘ دوستوں سے بہت باتیں سننی پڑیں۔ سب حیران تھے کہ میں نے پارٹی چھوڑ کیسے دی؟میں نے ان سب چیزوں کو ناگواریاں سمجھ کر ہنس کر برداشت کیا۔خدمت نے زندگی کا رخ ہی بدل دیا:میں نے قرآن پڑھنا چھوڑ دیا تھا مگر آپ ہی کی نسبت کی وجہ سے دوبارہ قرآن پاک سے تعلق بنا۔ تسبیح خانہ میں ہر موقع پر حاضری ہوتی رہی۔نویں‘ دسویں محرم‘ گیارہویں‘ بارہویں ربیع الاوّل پر تسبیح خانہ حاضری دی‘ بہت زیادہ روحانی سکون ملا‘لنگر بھی بہت لذیذ تھا۔وہاں بھی یہ دعا کرتی رہی کہ اے اللہ تیرے لیے میں نے اپنی خواہشات اور جذبات کو قربان کیا اور مدینے والے کے حکم پر عمل کیا بس تو قبول کرلے۔ پھر رمضان کا مہینہ آیا‘ میں نے اور گھر والوں نے پورا رمضان تسبیح خانہ میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ میرے دل میں اللہ کا عشق‘ مدینے والے کا عشق اور حضرت جی آپ کے عشق کی چنگاریاں پیدا ہو چکی تھیں۔ رمضان خدمت کی نیت سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔الحمدللہ اس رمضان نے تو میری زندگی کو یکسر ہی بدل دیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ کو اور آپ کی نسلوں کو اور آپ سے جُڑے ہر انسان کو کامل ایمان‘ کامل اخلاق اور کامل اخلاص عطا فرمائے۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں